Pages

اتوار، 24 جولائی، 2016

ڈیجیٹل طلبہ


ذرائع علمی ہوں یا عملی انسان ہمیشہ بہتر  اور باسہولت راستہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ پہلے سفر پیدل اونٹوں پر ہوتے تھے آج سفر ہوائی جہاز سے ہورہا ہے۔ اسی طرح پہلے علمی تحقیق ایک   ایک  کتاب کی تلاش کے نتیجے میں مکمل ہوتی تھی اور آج انسان نے ہزاروں کتابوں کو ایک  جگہ جمع کردیا ہے اور حسب ضرورت منٹوں میں سیکنڈوں میں مطلوبہ مواد حاصل کرپاتا ہے۔
یہ سن دوہزار  چار کی بات ہے، جب میں ساوتھ افریقہ میں اپنا تخصص فی الفقہ کرنے گیا،تو ساتھ جاتے ہوئے ایک عدد لیپ ٹاپ اور بنیادی سی ڈیاں ساتھ لے گیا۔ ان سی ڈیوں میں مکتبة الشاملہ، مکتبة الحدیث جیسے پروگرام تھے جن میں ہزاروں حدیث فقہ لغت عربی ادب وغیرہ کی کتب پہلے سے موجود تھیں ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہاں دو عدد کمپیوٹر کلاس میں پہلے سے موجود ہیں مگر انکا کوئی خاص استعمال نہیں ہے۔ خیر ان دونوں کمپیوٹروں میں بھی یہ پروگرام انسٹال کئے اور باقی درسگاہ کے ساتھیوں کو بھی اسکے استعمال کا طریقہ سکھانا شروع کردیا۔ سوفٹ وئیر کی مدد سے ہم مسئلہ تو تلاش کرلیتے تھے لیکن اس میں جس کتاب کا حوالہ لکھا ہوا ہے ضروری نہیں کہ وہ ہی نسخہ ہماری لائبریری میں موجود ہو تو ہم کرتے یوں تھے کہ کمپیوٹر کی مدد سے عبارت تلاش کرلیتے جس سے ہمیں معلوم ہوجاتا کہ یہ مسئلہ کون سے باب میں آیا ہے پھر لائبریری میں جاکر اصل کتاب کو تلاش کرتے اور اسکا حوالہ اپنے فتوی میں دیتے جو کہ کئی بار پروگرام والے حوالے سے مختلف ہوتا تھا اس سے سہولت یہ ہوگئی کہ عام طور پر فتوی لکھتے وقت ہم ۴ سے ۷ حوالے ڈالتے تھے لیکن پروگرام کی مدد سے وہ حوالہ درجنوں کتب میں مل جاتا تھا جسکا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک تو دلائل کا ذخیرہ ہاتھ آجاتا  دوسرا مسئلہ کا صحیح جواب کیا ہے اس پر بھی اور یقین ہوجاتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ سوال کا جواب اتنا تفصیلی اور طویل دلائل کی فہرست سے دیا جاتا کہ ہمارے استاد فرماتے کہ بھائی میں نے مسئلہ کا حل مانگا تھا تم نے تو پورا رسالہ ہی چھاپ دیا۔ 
آج 2016 میں وٹس ایپ پر ایک تحریر پڑھنے کا موقع ملا جسکا عنوان تھا”ڈیجیٹل علماء“ اس تحریر میں یہ فکر کی جارہی تھی کہ ان جدید پروگراموں نے علمی حلقے کو سست، کاہل بنادیا ہے اور یہ طبقہ چیزوں کو ذہن نشین کرنے، کتب کا مطالعہ کرنے کے بجائے پروگراموں پر انحصار کرتے ہیں جو کہ شدید نقصان دہ ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے چند ضروری ہدایات لکھنے کو من کیا، تاکہ اس سہولت کے فوائد نقصانات کو سامنے رکھا جائے تاکہ اگر کوئی کمی کوتاہی پیدا ہورہی ہے تو اسے دور کیا جاسکے۔

  • تخصص کے طلبہ کے لئے بنیادی ہدایات ۔

تخصص میں طالب علم کو ابتداء میں فتویٰ نویسی کے اصول سکھائے جاتے ہیں جس میں وہ یہ سیکھتا ہے کہ فتویٰ کیا ہوتا ہے، کیسے دیا جاتا ہے، کن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے، فتویٰ لکھتے وقت کیا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، کون سی کتب کا حوالہ زیادہ قابل اعتماد ہے ،حوالہ لکھنے کی ترتیب کیا ہوتی ہے وغیرہ تاکہ اسے شریعت کا مزاج معلوم ہوسکے۔ اسکے بعد اسے سوالات دئے جاتے ہیں اور پرکھا جارہا ہوتا کہ یہ طالب علم کیا ان اصولوں کے تحت فتویٰ لکھ رہا ہے یا نہیں، اور حسب ضرورت رہنمائی کی جارہی ہوتی ہے۔

اس عمل میں دو باتیں بہت اہم ہوتی ہیں 

ایک ،مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے کونسی فقہی بحث کو دیکھا جائے تو جواب جلد مل جائیگا۔ دوسرا یہ کہ وہ بحث کس موضوع کے تحت آئیگی یہ بات جسے جتنی اچھی اور جلد سمجھ آجائے وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔ اسی نقطے کو سیکھنے کے لئے کئی کتابیں دیکھنا ہوتی ہیں اور تلاش کرنا ہوتا ہے ۔ مجھے یاد ہے ایک مسئلہ ۴ دن کی تلاش کے بعد جاکر کہی ملا تھا ،اس دن مجھے احساس ہوا تھا عوام کتنی آسانی سے اپنا سوال ایک کاغذ پر لکھ کے جمع کرواتی ہے، انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ اسکا شرعی جواب تلاش کرنے میں مفتی کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔

اس تلاش کے عمل میں جب طالب علم مختلف کتب کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ مختلف ابواب کو پڑھتا ہے اور اس بہانے اسکی نظر سے سینکڑوں مسائل گزرتے ہیں جو آنے والے وقت میں اسے کام آتے ہیں۔ مثلا داڑھی کی مقدار فقہ کی کتابوں میں کہاں لکھی ہوئی ہے؟اسکی تلاش میں کئی روز لگے ، مختلف کتب دیکھیں بعد میں معلوم ہوا کہ وضوء کے جہاں احکامات لکھے ہوئے ہیں وہاں داڑھی کی مقدار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس محنت میں بالکل نقصان نہیں ہوا بلکہ فائدہ ہوا کہ بہت سارے اور مسائل کو مطالعہ کرلیا۔
اب اگر تخصص کے طلباء کمپیوٹر کی مدد سے مسائل لکھنا چاہتے ہیں تو وہ چند ہدایات پر عمل کریں ، امید ہے اس جدید سہولت سے انکا مطالعہ اور وسیع ہوگا۔
  • پروگرام میں سرچ کا نتیجہ آنے کے بعد سب سے پہلے تمام نتائج کا مطالعہ کریں ۔ اس سے فقہاء کا موقف اور واضح ہوکر سامنے آئیگا
  • آج کل کئی فتاویٰ تخریج کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں لھذا مسئلہ کی تخریج کو ضرور پڑھیں کہ، کس آیت، حدیث،فقہی عبارت کے نتیجے میں صاحب فتویٰ نے  لکھا ہے
  • فرض کریں قرآن کی آیت کا حوالہ مل گیا تو اس آیت کو الگ سے سرچ کریں اور دیکھیں کے کن مشہور مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے
  • یہ ہی عمل حدیث و فقہ میں کیا جائے ان کی شروحات بھی سرچ کی جائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ محدثین،فقہاء کی کیا رائے ہے اور اگر اختلاف پایا جاتا ہے تو کیا دائل ہیں اور انکے جوابات کیا ہیں۔
  • کتب کا حوالہ ،اپنی لائبریری میں موجود نسخوں کا استعمال کریں تاکہ کتاب کے ساتھ تعلق بھی قائم رہے
اس ترتیب پر عمل کے نتیجے میں آپ کو چار فائدے ہوئے۔
  • ایک  تو تمام فتویٰ کی کتب نظر سے گزرگئیں اور معلوم ہوگیا کہ فقہاء نے اس مسئلہ کا کیا جواب لکھا ہے
  • دوسرا یہ معلوم ہوگیا کہ اس مسئلہ کو فقہاء نے کس آیت کی روشنی میں اخذ کیا تھا
  • تیسرا یہ معلوم ہوگیا کہ کن مفسرین نے اس مسئلہ کو اس آیت کے تحت ذکر کیا ہے
  • چوتھا یہ کہ پورا مسئلہ ذہن نشین ہوگیا
اس طریقہ کو اگر اپنایا گیا تو ان شاء اللہ آپ کا علم ، تحقیق کم وقت میں زیادہ تیزی سے ترقی کرینگے۔ اور اگر صرف سرچ کرکے مسئلہ کاپی پیسٹ کرنے کی عادت اپنالی تو سمجھیں آپ نے اپنے ہاتھوں اپنے پاؤں پر کلھاڑی ماردی یا یوں کہیں کہ چھری سے سبزی کاٹنے کے بجائے آپ نے اپنا ہاتھ خود کاٹ لیا۔ کیونکہ سمجھے بغیر کاپی پیسٹ تو کوئی بھی کرسکتا ہے اس میں آپکا کیا کمال ہوا؟ لیکن اگر سمجھ کر کاپی پیسٹ کیا تو وہ ذہن میں بھی نقش ہو جائیگا اور فقہاء کی تحقیق کا اسلوب بھی سیکھ جائینگے ۔
مندرجہ ذیل پروگراموں سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے:
مکتبة الشاملہ (عربی)
مکتبہ جبریل (اردو)
مکتبہ مکنون(اردو)
مکتبہ یاسین(اردو)

4 تبصرے:

  1. تحریر مفید هے ماشاءالله!
    البته بهتر هوتا که یه ایک مستقل تحریر هوتی اور کسی کے جواب میں نه هوتی کیوں که بصورت دیگر جدل کی کیفیت پیدا هوجاتی هے.
    طالب علمانه راۓ هے.امید هے محسوس نه فرمائیں گے.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اس پوسٹ کا صرف اور صرف مقصد مفید پہلو بھی سامنے لانا تھا۔ قطعا کسی کی مخالفت مقصود نہیں۔
      جزاک اللہ

      حذف کریں
  2. ماشاءاللہ ۔۔۔ نہایت مفید تحریر
    اللہ پاک اس تحریر کا فیض عام و تام فرمائے۔۔
    آمین

    جواب دیںحذف کریں