Pages

پیر، 18 جولائی، 2016

ایدھی صاحب ، جناب حمزہ عباسی اور انسانی اعضاء کی پیوندکاری







وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
 [الإسراء: 36]
اور نہ پیچھے پڑ جس بات کی خبر نہیں تجھ کو بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہوگی

And do not pursue that which you have no knowledge of. Surely, the ear, the eye and the heart - each one of them shall be interrogated about.



ایدھی صاحب کے دیکھا دیکھی جناب حمزہ عباسی صاحب نے بھی اپنے تمام اعضاء انسانیت کے لئے وقف کرنے کی نصیحت کردی۔ اگر نیکی کی نیت سے یہ کام کیا ہے تو نیکی تو چھپ کرکی جاتی ہے تو اتنا بڑا اعلان اور اسکے بعد پرستاروں کی واہ واہ کا کیا مقصد؟
اور اگر نیکی کی نیت نہیں کی تو دنیا وآخرت کا خسارے کا ٖفیصلہ کیا ہے، کیونکہ مسلمان کسی بھی قسم کا کوئی بھی قدم اٹھاتا ہے تو ہمیشہ اللہ کی رضاء کو مقدم رکھتا ہے اور اگر الله كي فرمابرداري مقصود ہی نہ ہو تو دنیا میں تو شاید چند دنوں کے لئے واہ واہ ہو لیکن آخرت میں اسکا کوئی بدلہ نہیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
مسئلہ:
علماء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انسان اپنے اعضاء وصیت نہیں کرسکتا کیونکہ وہ ان اعضاء کا مالک ہی نہیں ، اسکی مثال بالکل ایسی ہوجائیگی کہ کوئی شخص مرتے وقت پڑوسی کی جائداد اپنی اولاد کو وصیت کرجائے تو کیا وہ وصیت قابل قبول اور قابل عمل ہوگی؟
اسی وجہ سے بحالت شدید مجبوری بھی انسان اپنے جسم کا کچھ حصہ نہ کھا سکتا ہے نہ کھلا سکتا ہے اور نہ ہے مردہ انسان کا، بھلے بھوگ سے مر ہی کیوں نہ جائے، حالانکہ ایسی صورت میں خنزیر کھا سکتا ہے وہاں شریعت اسے زندہ رہنے کا حکم دیتی ہے لیکن انسان کا احترام شریعت میں اتنا اونچا ہے کہ انسان انسان کو کسی بھی صورت میں نہیں کھاسکتا۔

چلیں دومنٹ کے لئے مان لیتے ہیں کہ یہ عمل جائز ہے تو اسکے اثرات کیا ہونگے؟

عباسی صاحب کی کھال کے جوتے غریب بچوں کو پہنائے جائنگے
ہڈیاں پیس کر بوڑھوں کے لئےدانت  بنائے جائنگے
بال کسی گنجے کو لگ جائنگے
دل، جگر،گردے،پھپڑے دوسرے انسانوں میں منتقل کردئے جائینگے
آنتوں میں گوشت بھر کے غریبوں کا ہاٹ ڈاگ، پلونی، سوسجز بنا کرپیٹ بھرا جائیگا
خون چونکے مرے ہوئے کا کسی دوسرے انسان کو لگا نہیں سکتے تو وہ جانوروں کی فیڈ میں پروٹین کے طور پر استعمال کردیا جائیگا۔
واہ کیا وحشیت سے بھری انسانیت کی خدمت ہے۔
كيا اس نيت سے زناء كرنا جائز ہوگا کہ کسی کے گھر کا چولھا جلتا ہے ان پیسوں سے؟
کیا کسی کو قتل کرنا جائز ہوگا کہ بے چارا روز روز بھوگ سے مرتا تھا؟
کیا کسی کا مال چوری کرنا جائز ہوگا کہ دوسرے انسان کی ضرورت پوری ہو؟
خدارا اپنی عقل کو شریعت کا تابع بنائیں ورنہ انسان سے بڑا جانور اس کائنات میں کوئی نہیں، کیوں ایک فساد کا دروازہ کھولنے پر تلے ہوئے ہیں ہم۔ اللہ سے زیادہ کیا ہم اسکی مخلوق کا درد رکھتے ہیں؟ 

پیارے بھائی انسانیت کی خدمت کے جائز طریقے اپنائیں تاکہ موت کے بعد صدقہ جاریہ ہو آپ کے لئے۔ جیسے:

اپنی جائداد سے بڑا یا چھوٹا حصہ انسانیت کے لئے وقف کردیں

یہ کیسی خدمت ہوئی کہ اپنی جان کو بے کار سمجھ کر اسے بانٹ دیا، بے کار چیزیں انسانیت کی خدمت میں دینا کیا مناسب ہے؟  دینا ہے تو قیمتی چیز دو بھائی جو آپ کے لئے بھی حیثیت رکھتی ہو اور انسانیت کے لئے بھی۔


س… دُکھی انسانیت کی خدمت کرنا بہت بڑا ثواب ہے، اسلام میں کیا یہ جائز ہے کہ کوئی آدمی فوت ہونے سے پہلے وصیت کرجائے کہ مرنے کے بعد میری آنکھیں کسی نابینا آدمی کو لگادی جائیں؟

ج… کچھ عرصہ پہلے مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ اور مولانا سیّد محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ نے علماء کا ایک بورڈ مقرّر کیا تھا، اس بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف پہلووٴں پر غور و خوض کرنے کے بعد آخری فیصلہ یہی دیا تھا کہ ایسی وصیت جائز نہیں اور اس کو پورا کرنا بھی جائز نہیں۔ یہ فیصلہ ”اعضائے انسانی کی پیوندکاری“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔

          شاید یہ کہا جائے کہ یہ تو دُکھی انسانیت کی خدمت ہے، اس میں گناہ کی کیا بات ہے؟ میں اس قسم کی دلیل پیش کرنے والوں سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ واقعتا اس کو انسانیت کی خدمت اور کارِ ثواب سمجھتے ہیں تو اس کے لئے مرنے کے بعد کا انتظار کیوں کیا جائے؟ بسم اللہ! آگے بڑھئے اور اپنی دونوں آنکھیں دے کر انسانیت کی خدمت کیجئے اور ثواب کمائیے۔ دونوں نہیں دے سکتے تو کم از کم ایک آنکھ ہی دیجئے، انسانیت کی خدمت بھی ہوگی اور ”مساوات“ کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔
          غالباً اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ زندہ کو تو آنکھوں کی خود ضرورت ہے، جبکہ مرنے کے بعد وہ آنکھیں بیکار ہوجائیں گی، کیوں نہ ان کو کسی دُوسرے کام کے لئے وقف کردیا جائے؟

          بس یہ ہے وہ اصل نکتہ، جس کی بنا پر آنکھوں کا عطیہ دینے کا جواز پیش کیا جاتا ہے، اور اس کو بہت بڑا ثواب سمجھا جاتا ہے، لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ نکتہ اسلامی ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ حیات بعد الموت (مرنے کے بعد کی زندگی) کے انکار پر مبنی ہے۔
          اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کی زندگی کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ زندگی کا ایک مرحلہ طے ہونے کے بعد دُوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، مرنے کے بعد بھی آدمی زندہ ہے، مگر اس کی زندگی کے آثار اس جہان میں ظاہر نہیں ہوتے۔ زندگی کا تیسرا مرحلہ حشر کے بعد شروع ہوگا اور یہ دائمی اور ابدی زندگی ہوگی۔

          جب یہ بات طے ہوئی کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا سلسلہ تو باقی رہتا ہے مگر اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو اَب اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا آدمی کو دیکھنے کی ضرورت صرف اسی زندگی میں ہے؟ کیا مرنے کے بعد کی زندگی میں اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں؟ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ اگر مرنے کے بعد کسی نوعیت کی زندگی ہے تو جس طرح زندگی کے اور لوازمات کی ضرورت ہے اسی طرح بینائی کی بھی ضرورت ہوگی۔

          جب یہ بات طے ہوئی کہ جو شخص آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرتا ہے اس کے بارے میں دو میں سے ایک بات کہی جاسکتی ہے، یا یہ کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتا، یا یہ کہ وہ ایثار و قربانی کے طور پر اپنی بینائی کا آلہ دُوسروں کو عطا کردینا اور خود بینائی سے محروم ہونا پسند کرتا ہے۔ لیکن کسی مسلمان کے بارے میں یہ تصوّر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل نہیں ہوگا، لہٰذا ایک مسلمان اگر آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ خدمتِ خلق کے لئے رضاکارانہ طور پر اندھا ہونا پسند کرتا ہے۔ بلاشبہ اس کی یہ بہت بڑی قربانی اور بہت بڑا ایثار ہے، مگر ہم اس سے یہ ضرور کہیں گے کہ جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہ اختیارِ خود اندھاپن قبول فرما رہے ہیں تو اس چند روزہ زندگی میں بھی یہی ایثار کیجئے اور اس قربانی کے لئے مرنے کے بعد کا انتظار نہ کیجئے․․․!
          ہماری اس تنقیح سے معلوم ہوا ہوگا کہ 
:
          ۱:… آنکھوں کا عطیہ دینے کے مسئلے میں اسلامی نقطہٴ نظر سے مرنے سے پہلے اور بعد کی حالت یکساں ہے۔
          ۲:… آنکھوں کا عطیہ دینے کی تجویز اسلامی ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ حیات بعد الموت کے انکار کا نظریہ اس کی بنیاد ہے۔

          ۳:… زندگی میں انسانوں کو اپنے وجود اور اعضاء پر تصرف حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اس کا اپنے کسی عضو کو تلف کرنا نہ قانوناً صحیح ہے، نہ شرعاً، نہ اخلاقاً۔ اسی طرح مرنے کے بعد اپنے کسی عضو کے تلف کرنے کی وصیت بھی نہ شرعاً دُرست ہے، نہ اخلاقاً۔ بقدرِ ضرورت مسئلے کی وضاحت ہوچکی، تاہم مناسب ہوگا کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات نقل کردئیے جائیں۔
عن عائشة رضی الله عنہا قالت: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: کسر عظم المیت ککسرہ حیًّا۔
(رواہ مالک ص:۲۲۰، ابوداوٴد ص:۴۵۸، ابن ماجہ ص:۱۱۷)
           ترجمہ:… ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میّت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندگی میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔ 

   عن عمرو بن حزم قال: راٰنی النبی صلی الله علیہ وسلم متکئًا علٰی قبر، فقال: لا توٴذ صاحب ھذا القبر، أو لا توٴذہ۔ رواہ أحمد۔“ (مسند احمد، مشکوٰة ص:۱۴۹)
ترجمہ:… ”عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں قبر کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر والے کو ایذا نہ دے۔ 
  عن ابن مسعود: أذی الموٴمن فی موتہ کأذاہ فی حیاته۔
      (ابنِ ابی شیبه، حاشيه مشکوٰة ص:۱۴۹)
          ترجمہ:… ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ موٴمن کو مرنے کے بعد ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں ایذا دینا۔ 
          حدیث میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا لمبا قصہ آتا ہے کہ وہ ہجرت کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، کسی جہاد میں ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا، درد کی شدّت کی تاب نہ لاکر انہوں نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی، ان کے رفیق نے کچھ دنوں کے بعد ان کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ٹہل رہے ہیں مگر ان کا ہاتھ کپڑے میں لپٹا ہوا ہے، جیسے زخمی ہوتا ہے، ان سے حال احوال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ: اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی برکت سے میری بخشش فرمادی۔ اور ہاتھ کے بارے میں کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: جو تو نے خود بگاڑا ہے اس کو ہم ٹھیک نہیں کریں گے۔

          ان احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ میّت کے کسی عضو کو کاٹنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں کاٹا جائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو عضو آدمی نے خود کاٹ ڈالا ہو یا اس کے کاٹنے کی وصیت کی ہو وہ مرنے کے بعد بھی اسی طرح رہتا ہے، یہ نہیں کہ اس کی جگہ اور عضو عطا کردیا جائے گا۔ اس سے بعض حضرات کا یہ استدلال ختم ہوجاتا ہے کہ جو شخص اپنی آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرجائے، اللہ تعالیٰ اس کو اور آنکھیں عطا کرسکتے ہیں۔
          بے شک اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ وہ اس کو نئی آنکھیں عطا کردے، مگر اس کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو آپ کو بھی نئی آنکھیں عطا کرسکتے ہیں، لہٰذا آپ اس ”کرسکتے ہیں“ پر اعتماد کرکے کیوں نہ اپنی آنکھیں کسی نابینا کو عطا کردیں․․․! نیز اللہ تعالیٰ اس بینا کو بھی بینائی عطا کرسکتے ہیں تو پھر اس کے لئے آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کیوں فرماتے ہیں․․․؟
          خلاصہ یہ کہ جو شخص مرنے کے بعد بھی زندگی کے تسلسل کو مانتا ہو اس کے لئے آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرنا کسی طرح صحیح نہیں، اور جو شخص حیات بعد الموت کا منکر ہو اس سے اس مسئلے میں گفتگو کرنا بے کار ہے۔

6 تبصرے:

  1. ماشاء الله ۔۔۔ اللہ تعالی آپ کے علم اور عمل میں برکت عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بھت ہی شاندار اور جاندار تحریر

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءالله بارك الله في جهودكم ومساعيكم

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشاءالله
    اللهم زد فزد
    خدا کرے زور قلم اور زیاده

    جواب دیںحذف کریں
  5. جزاک اللہ، مفید مشوروں نے نوازتے تہیں اور دعاوں میں یاد رکہیں

    جواب دیںحذف کریں