Pages

منگل، 19 جولائی، 2016

عبدالستار ایدھی مفتی زرولی اور موقع پرست عناصر (گدھ)

محترم عبدالستار ایدھی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوئے چند گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ ملک دشمن عناصر نے ایک نئی سازش گڑھنا شروع کردی، ایک مولانا کی زمانوں پرا نی کوئی تقریر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا سوشل میڈیا پر چلادیا گیا  جس میں مولانا صاحب نے ایک شرعی مسئلہ خاص پٹھانی سٹائل میں سنایا تھا  اور وہ مسئلہ یہ تھا کہ زکوۃ کی رقم کسی غیر مسلم پر خرچ نہیں کی جاسکتی اور عام رفاعی ادارے اس مسئلہ کا خیال نہیں رکھتے  لھذا آپ کی زکوۃ ادا نہیں ہوتی،اور مثال میں انہوں نے عبدالستار ایدھی صاحب کا نام لیا کہ انکے ادارے میں آپ کی زکوۃ سے غیر مسلموں کی بھی مدد کی جاتی ہے ، خرچ کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ کس مال سے مدد کی جارہی ہے۔ ساتھ یہ بھی گلا کیا کہ زناء کو روکنے کے بجائے زناء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری بھی ایدھی صاحب نے لے لی ہے تاکہ زناء کرنے والے بے  فکر ہوجائیں ۔

(ایدھی صاحب  لڑکا لڑکی  کے  بغیر نکاح پلاپ کو زناء اور اس سے پیدا ہوانے والے بچے کو حرامی نہیں سمجھتے تھے، فرماتے تھے کہ انکا ملنا ہی نکاح ہے)

یاد رہے کہ یہ بات ایدھی صاحب کی زندگی میں کی گئی تھی اور ایدھی صاحب کے انٹرویو موجود ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں مولویوں کی پرواہ نہیں کرتا ،تو بات توختم ہوگئی ، لیکن فتنہ پرور سوچ کو تو بہانہ چاہیئے ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب کی موت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان موقع پرست گدھوں نے خوب گالیاں دیں علماء کو اور دل کا بغض ،حسد نکالا۔

ذرا تجزیہ کرتے ہیں ان دونوں معاملات کا کہ کیا کس حد تک درست ہے۔

یہاں تین بنیادی باتیں قابل غور ہیں

1-مولانا صاحب کی تقریر
2-ایدھی فاونڈیشن کا طریقہ کار
3-موقع پرست عناصر (گدھ)

1-مولانا صاحب کی تقریر

مولانا صاحب کی تقریر کا انداز شہری لحاظ سے غیر مہذب تھا لیکن مسئلہ صحیح بتایا تھا ، اگر انداز پر غور کیا جائے تو مولوی صاحب پٹھان ہیں لھذا طبیعت میں گرمی،غصہ، سختی زیادہ پائی جاتی ہے اس لیئے زیادہ منہ پھٹ ہیں اور انسانی نفسیاتی اصول یہ ہی درس دیتے ہیں کہ ایسی طبیعت والے افراد کے لہجہ کا برا نہیں منانا چاہیئے بلکہ انکی فکر کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔

2-ایدھی فاونڈیشن کا طریقہ کار

اگر ایدھی فاونڈیشن میں اس بات کا اہتما م کیا جاتا ہے کہ خدمت انسانیت کرتے وقت  اللہ کے اصولوں کے مطابق  خدمات سرانجام دی جاتی ہوں تو بہت ہی اچھی بات ہے اور اگر ان اصولوں کو اپنایا نہیں جاتا تب بات فکر کی ضرور ہے۔ مثال سے سمجھانا کی کوشش کرتے ہیں۔
زکوۃ ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے، زکوۃ اسلام کے بنیادی 5 ارکانوں میں سے ایک رکن ہے، زکوۃ حقوق اللہ میں سے ہے، حدیث کی روح سے زکوۃ صرف ضرورت مند مسلمان کو دی جاسکتی ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ صرف مسلمان ہی کو کیوں دی جاسکتی ہے حالانکہ زکوۃ کا مقصد تو انسانیت کی فلاح ہے، تو عرض یہ ہے کہ زکوۃ کا ادا کرنا صرف مسلمانوں پر فرض ہے، غیر مسلم پر نہیں  اور یہ عبادت بھی ہے لھذا اسکا فائدہ وہی اٹھاسکتا ہے جو اللہ و رسول پر ایمان رکھتا ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ریاست اپنی عوام کو بے روزگاری الاونس دیتی ہو تو اس سہولت سے فائدہ صرف وہ شخص ہی اٹھا سکتا ہے جو اس ملک کا شہری ہو۔ امید ہے بات سمجھ آگئی ہوگی۔

انسانیت مٹ چکی تھی جب اسلام نے دوبارہ انسان کو انسانیت سکھلائی لھذا اسلام نے غیر مسلمانوں کے حقوق کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ علاوہ زکوۃ ،صدقہ کی رقم سے غیر مسلم کی مدد کی جاسکتی ہے۔

اب اگر آپ کی زکوۃ لے کر کوئی ادارہ اسی رقم سے غیر مسلموں کی بھی مدد کرتا ہے تو آپ کی زکوۃ ادا نہیں ہوئی جو کہ سراسر نقصان ہے لھذا جس بھی ادارے کو اپنی زکوۃ ادا کریں اس سے یہ معلوم ضرور کرلیں کہ آیا وہ اس بات کا اہتمام کرتا ہے یا نہیں۔

3-موقع پرست عناصر (گدھ)
پاکستان کے خلاف مختلف محاظوں پر جنگ لڑی جارہی ہے، جن میں سے ایک سازش یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کو تفرقہ بازی میں لڑواو جو کافی عرصہ کامیاب بھی رہی لیکن پھر لوگ سمجھ گئے تو اب کچھ عرصے سے نئی سازش یہ چل رہی ہے کہ عوام کو علماء سے متنفر کردو اور دو جماعتیں بنادو 1- دین دار ، مذہبی طبقہ 2- لبرلز ( اللہ اس سازش کو بھی ناکام فرمائیں)

ایدھی صاحب کی میت ابھی دفن ہوئی نہیں تھی کہ سوشل میڈیا پر پری پلان ایک شوشہ چھوڑدیا گیا کہ فلاں مفتی صاحب نے ایدھی کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے ہیں  اور ایک چھوٹا سا وائس کلپ چلادیا گیا، یہ سب جانتے ہیں کہ ایدھی صاحب کی سب کے دل میں عزت ہے تو اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور عوام کے اس حلقہ کو بھی ٹارگٹ کیا جائے جو میانہ روی والی سوچ رکھتا ہے یا قدر کی نگاہ سے علماء کو دیکھتا ہے۔   حالانکہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس بات کی تردید کردی تھی لیکن اس بیان کو نہیں چلایا گیا۔
حقیقت حال یہ ہے کہ وہ تقریر آج کی نہیں ہے بلکہ پرانی ہے اور ایدھی صاحب کی زندگی کی ہے یعنی ایک زندہ انسان نے دوسرے زندہ انسان کے بارے میں کوئی تنقید کی جو کہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ہم روز ٹالک شوز نہیں دیکھتے جس میں ایک دوسرے پر الزامات یا تنقید کی جارہی ہوتی ہے؟   اس تنقید کو سب اچھا کہتے ہیں کہ یہ برائے اصلاح تنقید ہے اب اگر کوئی شخص آج کی تاریخ میں نواز شریف صاحب کی محترمہ نے نظیر صاحبہ پر تنقید چلادے اور تصویر میں محترمہ کی میت ہو  تو اسے کیا نام دیا جائیگا؟  ہر ایک بولیگا کہ مقصد کیا ہے تمہارا بے وقت کسی چیز کو بیان کرنے کا؟

یہ سوچ خالص گندے ذہن  ، سازش  کی عکاسی کرتی ہے کہ کسی محسن کی میت پر اپنی ذاتی دشمنی نکالی جائے۔ ایسے لوگ نہ ایدھی صاحب کے مخلص ہیں نہ عوام کے اور نہ ہی علماء کے

چند مثالیں پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں:

زید زمان حامد صاحب نےاپنے ٹویٹر اکاونٹ پر لکھا کہ :
Why all known Mullas of this unfortunate nation refused to attend Jinaza of Edhi?? Jealous of his fame & respect he got? Shame.
ترجمہ: تمام معروف ملا ؤں نے ایدھی کے جنازے پر شرکت کرنے سے انکار کیوں کیا؟ وہ کیا اسکی شہرت اور عزت سے ڈرتے ہیں؟

ماروی سرمد صاحبہ نے ایک ریٹیوٹ کی:
Honestly, they didn't deserve to pray nemaz e janaza of Eidhi sahib.
ترجمہ: حقیقتا مولوی اسکے جنازہ پڑھنے کے قابل ہی نہ تھے

ایسے کئی خرافات پڑھنے کو ملے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ زید حامد خود بھی جنازے پر نہیں آئے تو کس منہ سے وہ الزام لگارہے تھے؟ اگر کسی مجبوری سے نہیں آپائے تو دوسرے انسانوں کی بھی کوئی نہ کوئی مجبوری ضرور ہوگی جو خود نہ آسکے تو نہ آنے کو جرم کس منہ سے بنادیا؟
ماروی صاحبہ  یہ بھول گئی کہ جنازہ کسی سیاستدان، سوشل ورکر، فوجی  یا ایدھی صاحب کی اولاد نے نہیں پڑھوایا بلکہ ایک عالم نے ہی پڑھوایا ہے  تو علماء پر اعتراض کرنا ہی غلط ہوا

خلاصہ کلام یہ ہے میں ہر اس شخص کو پاکستان کا دشمن سمجھتا ہوں جو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاکستانیوں کو آپس میں لڑانے کی وجہ تلاش کرتا ہے
اللہ ہم سب کو سچا مسلمان اور پکا پاکستانی بننے کی توفیق عطا فرمائے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں