Pages

منگل، 19 جولائی، 2016

اسلام میں مرتد کی سزا


کچھ  عرصہ قبل محترم حمزہ  عباسی صاحب نے آج نیوز چینل پر رمضان کی ٹراسمیشن کے دوران ایک سوال اٹھایا، وہ جاننا چاہتے تھے کہ  یہ جو بات مشہور  ہے کہ "اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے " کہاں تک درست ہے ۔ اس حوالے سے کتب اسلامیہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ مختصر مناسب سی تحریر ملی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
اسلام "میرے خیال میں"  کا نام نہیں ہے۔ بلکہ قرآن   کا حکم نبی کریم ﷺ کی تشریح ،صحابہ  رضی اللہ عنہم  کا عمل اور تابعین ،فقھاء کا اجماع کے مجموعے کا نام ہے۔ جب بھی شرعی مسئلہ معلوم کرنا ہو تو ان تمام بنیادوں پر برابر نظر رکھنی ہوتی ہے تب جاکر شرعی مسئلہ حل کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے نام نہاد، بے سندسکالرز ،  ٹی وی پر بیٹھ کر بغیر قرآن سنت کی دلیل کے اپنی رائے بیان کرتے ہیں کہ " میری تحقیق، میری رائے، میری سمجھ" کے مطابق اسلام میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہے یا یوں کہتے ہیں کہ وہ حکم آپ ﷺ  کے زمانے کے ساتھ خاص تھا۔ یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل مواد کو پڑھنے سے قاری کو دو فائدے حاصل ہونگے۔  

نمبر ایک :اسلام میں مرتد کی سزا کا حکم کیا ہے اور اس حکم کے دلائل کیا ہیں۔

نمبر دو :یہ کہ جو حضرات اس شرعی حکم کا انکار کرتے ہیں اور دین اسلام میں تحقیق کے نام پر تحریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان سے اسی پیمانے پر دلائل طلب کریں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کوئی ایک بھی ایسا نہ ہوگا جو اس پیمانے پر اپنے دلائل دے سکے بلکہ وہ سب سے پہلے یا صحابہ کے عمل کو جھٹلائیگا یا  تابعین و فقہاء پر الزام تراشی کریگا یا پھر سرے سے ہی حدیث کا انکار کردیگا۔  کیونکہ یہ پیمانہ ہی اللہ کی دین کا محافظ ہے  ان چار بنیادوں میں سے ایک بنیاد بھی اگر گرادی جائے تو آسانی سے دین اسلام میں تحریف ممکن ہے لھذا یہ ہی پہچان امت مسلمہ کے پاس کسی کے بھی حق یا باطل پر ہونے کی ہے ؛آیا وہ ان چاروں بنیادوں سے کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے یا کسی ایک کا انکار کرتا ہے ۔ 


یہ پڑھنے کے بعد امید کرتا ہوں لوگوں کا اندازہ ہو جائیگا کہ علماء کتنے بڑے محسن ہیں جنہوں نے ہر قسم کی تکلیف، طعنے برداشت کئے لیکن دین کی تعلیمات کو تروتازہ رکھا ، اگر یہ لوگ یہ ذمہ داری نہ نبھاتے تو آج اسلام کا بھی وہ ہی حال ہوتا جو دیگر منسوخ مذاہب کا ہے۔













کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں