Pages

بدھ، 10 اگست، 2016

خدارا اصل دشمن کو پہچانوں

دشمنی میں یا بدلہ لینا مقصود ہوتا ہے  یازیادتی کرنا،  دونو ں صورتوں میں نقصان یقینی ہے۔

کسی گھر کو توڑنا ہو تو کہتے ہیں شک کا بیج بو دو وہ گھر خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیگا، یہ کام اگر کسی ملک کے خلاف کرنا ہوتو وہاں بد اعتمادی کی فضاء قائم کی جاتی ہے یعنی  قوم کو پہلے زبان،مذہب،علاقائی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے پھر ریاست کے بنیادی ستونوں سے اعتماد ختم کیا جاتا ہے، فوج سیاست دانوں کو برا سمجھنے لگتی ہے، سیاست دان فوج سے نفرت کرنے لگتے ہیں، عوام دونوں سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اگر یہ چال کامیاب ہوجائے تو ریاست ایک لمحہ بھی ٹک نہیں پاتی اور وہاں کے حالات لیبیا،شام جیسے ہوجاتے ہیں۔
میرے عزیز ملک میں بھی کچھ ایسی ہی سازشیں دشمن تیار کررہا ہے اور اسکا اثر نظر بھی آرہا ہے۔ مسلک،مذہب،زبان یہاں تک کہ صوبائی تعصب مستقل پروان چڑھ رہا ہے۔ ایم کیو ایم فوج کو گالی دیتی ہے، تحریک انصاف سیاست دانوں کو، بلوچستان والے ایف سی کو۔ عوام ہاتھوں سے باہر ہے اسے نہ بڑے کی تمیز رہی نہ چھوٹے کی جسے جو جی میں آئے گالی بکتا ہے۔ صحافیوں کی طبیعت مادہ خنزیر جیسی ہوگئی ہے انہیں کسی بھی طرز حکومت سے تسکین نہیں ملتی۔ مستقل منفی باتیں سن سن کر ایک مکمل سن معاشرہ بنتا جارہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کی کمزوریاں تمام طبقات میں کثرت سے پائی جاتی ہیں لیکن جب یہ بات عیاں ہوجائے کہ دشمن میدان میں آگیا ہے  عقل مندی اسی میں ہوتی ہے کہ  خاموشی سے کمزوریاں دورکی جاتی ہیں اور یک زبان ہوکر شور دشمن کے خلاف مچایا جاتا ہے تاکہ پہلے گھر کو بچایا جاسکے بعد میں اندور خانہ اصلاحات کا سلسلہ مستقل چلتا رہے۔
کل کوئٹہ میں ایک دردناک حادثہ ہوا کم و بیش 100 افراد نے زندگی کی جنگ ہاردی، بجائے اس کے کہ ہم اصل دشمن کو تلاشتے قوم کے تاثرات کچھ ایسے تھے:
ساری فوج کی غلطی ہے
ایجنسیوں کی ناکامی ہے
یہ دھماکہ نواز شریف نے کروایا ہے
یہ ملاؤں کی وجہ سے ہوا ہے
ہسپتال انتظامیہ کی ناکامی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
اصل دشمن سے توجہ ہٹانے کے لئے سوچ کو تقسیم کردیا گیا، اگر ایک قوم ہوکر  دشمن کا نام لیا جاتا تو عالمی برادری کی بھی ہمدردی ساتھ ہوتی اور دشمن بھی شرمندہ ہوتا لیکن آراء مختلف ہونے کی وجہ سے دشمن بچ گیا اور ہم آپس میں ہی لڑپڑے یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟
ادھر عمران خان صاحب کو الگ اور عمران خان صاحب نے پوری قوم کوالگ لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
کسی قیمتی انسان کو خراب کرنا ہوتو سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ اسے اس کے اصل کام سے نکال کر کسی دوسرے کام میں ڈالدو۔ اس سے دو فائدے حاصل کئے جاتے ہیں۔
1-   وہ اپنے اصل مقصد سے دور ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ناکام رہتا ہے اس کام میں جو اس کے اصل ذمہ تھا
2-   دوسرا کام کیونکہ وہ اتنا جانتا نہیں لھذا اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے۔
خلاصہ:  کام کا آدمی نتائج دے نہیں پاتا جس کی وجہ سے اسکا شمار ناکام افراد میں ہونے لگتا ہے۔
یہ ہی کام عمران خان صاحب کے ساتھ بھی کیا جارہا ہے۔ اللہ نے موقع دیا تھا پورا ایک صوبہ ملا، پڑھے لکھے لوگوں کی ٹیم ملی  اصل تو یہ تھا کہ اس صوبے کی پانچ سال میں قسمت بدل دیتے، اتنی ترقی ہوتی کہ کے پی کے والے کام کے لئے لاہور یا کراچی کا رخ کرنا چھوڑ دیتے بلکہ بڑے شہروں والے کے پی کے میں اپنا کاروبار منتقل کرتے، لوگ اس صوبے میں منتقل ہونا زیادہ پسند کرتے۔ اس ترقی کی راہ میں اگر وفاق رکاوٹ بنتا تو اسمبلی ، پارلیمنٹ میں لوہے کے چنے چبوادیتے حکومت کے تب اصل مقصد حاصل ہوتا اور اگلا الیکشن بغیر کسی جلسے کے عمران خان صاحب کی گود میں آتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اس کے مقابلے میں صرف کراچی کا چالیس فیصد تاجر پنجاب منتقل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے صرف لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھتی ہوئی دو کروڑ کے قریب پہنچ گئی ہیں، اسلام آباد میں آپ کو میمن تاجر نظر آرہا ہے )
عمران خان صاحب نے عوام کو گالی دینا سکھادیا۔ عمران خان صاحب نے عوام کو اس بات کا یقین دلادیا کہ مسائل روڈوں پر حل ہوتے ہیں ، الزامات لگا لگا کر عوام کوحکمرانوں سے  بدظن کردیا (عوام کی نظر میں اب ہر حکمران برا بن چکا ہے)اور جب ثبوت مانگے گئے تو یہ کہ کر جان چھڑادی کہ یہ تو محض سیاسی بیان تھا ۔لاحول ولاقوۃ۔۔۔   اتنی بڑی ناسمجھی جس دن سمجھ آگئی اس دن سوائے افسوس کے ہاتھ میں کچھ نہ ہوگا۔
میری آج کی تحریر کی سمجھ اگلے الیکشن کے تنائج آنے کے بعد سمجھ آئی گی جب کے پی کے کی تاریخ سے عمران صاحب کا نام مٹ چکا ہوگا جیسے ایم این پی کا اس الیکشن میں مٹ گیا۔

خیر! اصل مقصد لکھنے کا یہ تھا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں خدارا اپنے دشمن کو پہچانوں، پاک چائنہ معاہدات جس دن پائے تکمیل کو پہنچ گئے اس دن پاکستان سے دوستی دنیا کی مجبوری بن جائیگی،پاکستانی سعودیہ، دبئی ، امریکہ جانے کے بجائے اپنے ملک میں کام کرنا پسند کرینگے، قوم بھول جائیگی کہ کبھی بجلی کے بھی مسائل تھے، یا پانی نہیں آتا تھا یا روڈ کچے تھے۔ اور یہ صرف زیادہ سے زیادہ تین سالوں کی بات ہے۔  اسی مستقبل کو دیکھتے ہوئے ہر طرف سے سازشیں رچائی جارہی ہیں  ہاں میں جانتا ہوں ہماری بہت کمزوریاں ہیں لیکن ابھی نہیں پلیز پہلے دشمن سے نمٹ لو گھر کی بات گھر میں ہی رہنے دو، گھر والے ہیں مل بیٹھ کے نمٹالینگے لیکن پہلے مشترکہ دشمن سے نمٹ لیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں