Pages

جمعہ، 9 دسمبر، 2016

میرا بھائی میرا لاڈلا میرا ویر جنید جمشید

میرا جنید جمشید سے تعلق کیا تھا وہ شاید اب ایک راز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ اب وہ میری آخرت کی انوسٹمنٹ بن چکا ہے۔
 ہمارا سفر قصیدہ بردہ پڑھنے کے آئیڈیا سے شروع ہوا اور " میں تو امتی ہوں"  سے گزر کر شہادت سے صرف ایک دن پہلے کے میسج تک رہا۔  2005 سے 2016 تک کے سفر میں اسکی صرف ایک خوشی میں شریک ہوسکا ،جو چند ماہ پہلے اسکے بیٹے کی شادی کی شکل میں آئی، باقی الحمدللہ جب جب انہیں کوئی تکلیف ہوئی، آزمائش میں مبتلاء ہوئے  اکثر پہلا بندہ میں ہی ہوتا تھا جو رابطہ میں آتا تھا۔ بس اسے مجھ پر کچھ خاص مان تھا اور میں بھی ہمیشہ بڑے بھائی اور لاڈلے کا انہیں درجہ دیتا تھا۔ میڈیا پر کچھ بھی  بات ہوجائے تو میرے دوست مجھے یوں طعنہ دیتے تھے جیسے میں جنید جمشید ہوں اور پھر اس عمل کی تخیلاتی  توجیہ، وضاحت جنید جمشید بن کر میں دیتا تھا ، پھر الگ سے جنید بھائی سے ربطہ کرتا کہ فلاں بات کی وضاحت کیا ہے۔یہ اس شخص کا بڑا پن تھا کہ کئی بار  میں نے ڈانٹ بھی دیا (میڈیا کے حوالے سے جب عوام کا اعتراض آتا تھا)  تو جواب میں ایک ہی بات فرماتے "جی مولانا صحیح فرمایا، آئندہ احتیاط کرونگا"۔
اسکی جدائی کا دکھ دل ہی دل میں کاٹے جارہا ہے پر ابھی تک وہ کندہ نہیں ملا جو میرے اس تعلق کو سمجھ سکے ،جس پر سر رکھ کر چیخ چیخ کر اپنے یار کا غم مناسکوں۔
جنید بھائی کی شہادت کی رات سوتے وقت میں نے اللہ کے حضور اس تعلق کو رکھ کر ملاقات کی بھیک مانگی تھی جو الحمدللہ شب جمعہ میں نصیب ہوگئی پر بہت مختصر لیکن اطمنان قلب کے لئے کافی رہی۔
"خواب میں دیکھتا کیا ہوں کہ جائے حادثہ میری آنکھوں کے سامنے ہے، پہاڑی ہے اور اندھیرا ہے اور وہاں مولانا طارق جمیل صاحب  سفید لباس میں بیٹھے ہوئے ہیں جو چمک رہا ہے  اور انکے  بائیں جانب   جنید جمشید سرجھکائےقرآن کریم کی تلاوت کررہا ہے اور اسکے دائیں ہاتھ میں جو گھڑی پہنی ہوئی ہے وہ چمک رہی ہے "۔پھر میری آنکھ کھل گئی۔

انشاء اللہ میرے  رب نے میرے یار کی امیدوں سے بڑھ کر اسکا اکرام کیا ہوگا۔ اللہ اسے اپنی شایان شان جنت میں اعلی درجہ نصیب فرمائے اور اسکے صدقے اسکے والدین کو بھی نواز دے اور اسکے خاندان کو صبر کرنے کی توفیق عطاکرمائے اور انہیں آپس میں جوڑے رکھے۔ آمین ثم آمین۔
یوسف عبدالرزاق خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں